داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہ (پھلت):حضرت مولانا عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ ان کی کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
بنی اسرائیل کا ایک قصاب اپنے پڑوسی کی کنیز پر عاشق ہوگیا‘ اتفاق سے ایک دن کنیز کو اس کے مالک نے دوسرے گاؤں میں کسی کام سے بھیج دیا‘ قصاب کو موقع مل گیا اور وہ بھی اس کنیز کے پیچھے ہولیا‘ جب وہ جنگل سے گزری تو اچانک قصاب نے سامنے آکر اسے پکڑلیا اور اسے گناہ پر آمادہ کرنے لگا‘ جب اس کنیز نے دیکھا کہ قصاب کی نیت خراب ہے تو اس نے کہا: اے نوجوان! تو اس گناہ میں نہ پڑ‘ حقیقت یہ ہے کہ تو جتنا مجھ سے محبت کرتا ہے‘ اس سے کہیں زیادہ میں تیری محبت میں گرفتار ہوں لیکن مجھے اپنے مالک حقیقی عزوجل کا خوف اس گناہ کے ارتکاب سے روک رہا ہے‘ اس نیک سیرت اور خوف خدا رکھنے والی کنیز کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ اس قصاب کے دل میں پیوست ہوگئے اور اس نے کہا جب تو اللہ سے اس قدر ڈر رہی ہے تو میں اپنے پاک پروردگار سےکیوں نہ ڈروں؟ میں بھی تو اسی مالک کا بندہ ہوں‘ جا تو بے خوف ہوکر چلی جا۔یہ کہنے کے بعد قصاب نے اپنے گناہوں سے سچی توبہ کی اور واپس پلٹ گیا۔ راستہ میں اسے شدید پیاس محسوس ہوئی لیکن اس ویران جنگل میں کہیں دور تک پانی کا نام و نشان نہ تھا‘ قریب تھا کہ گرمی اور پیاس کی شدت سے اس کا دم نکل جائے اتنے میں اسے اس زمانہ کے نبی علیہ السلام کا ایک قاصد ملا‘ اس نے قصاب کی یہ حالت دیکھی تو پوچھا تجھے کیا پریشانی ہے؟ قصاب نے کہا مجھے سخت پیاس لگی ہے‘ یہ سن کر قاصد نے کہا: آؤ ہم دونوں مل کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ ہم پر اپنی رحمت کے بادل بھیجے اور سیراب کرے‘ یہاں تک کہ ہم اپنی بستی میں داخل ہوجائیں‘ قصاب نے یہ سنا تو کہنے لگا میرے پاس توکوئی ایسا نیک عمل نہیں جس کا وسیلہ دے کر دعا کروں؟ آپ نیک شخص ہیں آپ ہی دعا فرمائیں‘ اس نے کہا ٹھیک ہے‘ میں دعا کرتا ہوں تم آمین کہنا‘ قاصد نے دعا کرنا شروع کی اور وہ قصاب آمین کہتا رہا‘ کچھ دیر میں بادل کے ایک ٹکڑے نے ان دونوں کو ڈھانپ لیا اور ان پر سایہ فگن ہوکر ان کے ساتھ ساتھ چلتا رہا‘ جب وہ دونوں بستی میں پہنچے تو قصاب اپنے گھر کی جانب روانہ ہوا اور وہ قاصد اپنی منزل کی طرف جانے لگا تو وہ بادل بھی قصاب کے ساتھ ساتھ رہا‘ جب اس قاصد نے یہ ماجرہ دیکھا تو قاصد نے قصاب کو بلایا اور کہنے لگا: تم نے تو کہا تھا کہ میرے پاس کوئی نیکی نہیں ہے اور تم نے دعا کرنے سے انکار کردیا تھا‘ پھر میں نے دعا کی اور تم آمین کہتے رہے۔ لیکن اب حال یہ ہے کہ بادل تمہارے ساتھ ہولیا ہے اور تم پر سایہ فگن ہے سچ سچ بتاؤ تم نے ایسی کون سی نیکی کی ہے جس کی وجہ سے تم پر یہ خاص کرم ہوا ہے یہ سن کر قصاب نے اپنا سارا واقعہ سنایا تو اس قاصد نے کہا اللہ کی بارگاہ میں گناہوں سے توبہ کرنے والوں کا جو مقام و مرتبہ ہے وہ دوسرے لوگوں کا نہیں‘ اور اللہ خوف سے گناہ سے باز آجانا اللہ کے یہاں ایسا مقبول ہے کہ انسان اللہ کے حضور میں بے انتہا درجات بڑھ جاتے ہیں۔ بے شک گناہ سرزد ہونا انسان ہونے کی دلیل ہے مگر اس پر توبہ کرلینا مومن ہونے کی نشانی ہے۔ کاش ہم نسخہ اکسیر کی قدر سمجھ سکتے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں